Saturday, March 28, 2020

اور پھر ہمیں خدا یاد آگیا۔۔

زندگی کے شور میں ہم سب مصروف ہوتے ہیں اس دنیا میں اتنا کھو جاتے ہیں کہ بھول جاتے ہیں کہ دراصل انسان کے اس کائنات میں آنے کا مقصد کیا ہے۔ اس فانی دنیا کی رعنائیوں میں اتنے مصروف ہوجاتے ہیں کہ یاد ہی نہیں رکھتے کہ آخر ہم کر کیا رہے ہیں
اس دنیا میں بھیجنے کا حکم صرف اس لیے نہیں دیا گیا تھا کہ ہم اللہ کی عبادت کریں، نماز روزے کا خیال کریں، نہ صرف حج کریں کیونکہ مقصد اگر صرف عبادت ہوتا تو یہ بات ہمیں بتادی گئی ہے کہ اس کائنات کی ہر شے اللّٰہ کی عبادت میں مشغول رہتی ہے، فرشتے ہر وقت اللہ کی حمد وثناء بیان کرتے رہتے ہیں لیکن ہم نے یہ سوچ لیا کہ ہمارا ضمیر اسی بات پر متفق ہے کہ ہمیں صرف وہ کرنا ہے جس سے ہمارا فائدہ ہو، ہم اپنے مفادات کی دوڑ میں اتنے آگے نکل گئے کہ بھول گئے کہ ہمیں اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا گیا تھا۔
آج دنیا کے تقریباً 199 ممالک ایک ایسی وبا کا شکار ہیں جس سے نہ کوئی امیر محفوظ ہے نہ غریب، نہ عرب والے نہ عجم والے، نہ مشرق کے انسان نہ مغرب کی عوام، نہ شمال کی ہوا نہ جنوب کی فضاء۔ آج خود کو طاقتور ترین ملک کہنے والے ممالک بےبسی کی اور عبرت کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ اور انتظار ہے تو اس ربّ العالمین کا جس کی قدرت کو ہم فراموش کر بیٹھے تھے۔ حقوق العباد تو جیسے کوئی مذاق ہوگیا تھا۔ سب ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی دوڑ میں شامل تھے، ایک دوسرے کو ختم کردینے کے خواب دیکھنے لگے تھے، کمزور کو تو جیسے ہم نے انسان ہی سمجھنا چھوڑ دیا تھا۔ 
ہر کوئی اپنی الگ ہی جنگ میں مصروف تھا، حقوق مانگے جارہے تھے اس مذہب سے جس نے ہر چیز کا جواب چودہ سو سال پہلے ہی دے دیا تھا، کہا گیا چہرہ ڈھانپ کر نہیں رکھیں گے حجاب پر پابندی لگا دی گئی آج کیوں اسی قرآن کو کھول کر بیٹھے ہیں ہم کہ شاید کہیں کوئی علاج مل جائے۔ میرے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتایا کہ کلونجی میں سوائے موت کے ہر علاج ہے لیکن ہم تو سب کچھ بھلا کر اکیسویں صدی میں جو آگئے تھے۔ 
اس دنیا نے عذاب کو خود دعوت دی ہے۔ کیوں نہ آئے عذاب جب ایک چھ ماہ کی ننھی سی پھول سے لے کر ساٹھ سال تک عورت اس معاشرے میں محفوظ نہ ہو، کیوں ہم پر رحم کیا جاۓ جب ایک نوجوان کو اس بات پر قتل کر دیا جائے کہ وہ آزاد ملک میں اپنی شناخت کے ساتھ رہنا چاہتا ہے، کس غرور میں ہم کہہ رہے ہیں کہ ہم ناراض نہیں ہونے دینگے اپنے رب کو کہ جب ایک بچی مر رہی ہو بھوک سے اور وہ یہ کہے کہ میں جا کر اپنے رب کو سب بتاؤں گی تو پھر یاد رکھیں کہ جو حضرت یوسف علیہ السلام کا رب ہے جو میرا اور آپ کا رب ہے جو سمندر کی گہرائیوں کے راز کا رب ہے جو پہاڑوں کو پل بھر میں روئی کردینے والا رب ہے تو پھر جان لیجئے کہ اس ننھی کلی اور اس جیسے لاکھوں بےبس اور بے سہارا معصوم لوگوں کا بھی رب ہے۔
کیسے ممکن ہے کہ ہم چوری کر رہے ہوں، ایک دوسرے کے حقوق کو کچل رہے ہوں، جھوٹ ایسے بول رہے ہوں کہ جیسے کبھی سچ کہا ہی نہ ہو، ریاکاری کر رہے ہوں، ماں باپ کو بوجھ سمجھتے ہوں، اپنی طاقت کا غلط استعمال کر رہے ہوں اور ہر وہ کام جو اس رب العالمین کو ناپسند ہو وہ کر رہے ہوں تو کیا اس کو ناراض ہونے کا حق نہیں؟ وہ رب جس نے رزق کا وعدہ کیا ہم اس کے پانچ مرتبہ آواز دینے پر اس لیے نہیں جاتے کہ ہمارے کاروبار رک جائیں گے، تو پھر جائیے اپنے دنیاوی کام کیجیے اسے ہماری عبادت کی کوئی ضرورت نہیں۔ آج ہم تڑپ رہے ہیں کہ کسی طرح مسجد میں صرف فرض ہی پڑھنے کی اجازت مل جائے، آج حقیقت یہ ہے کہ اس کا گھر خالی نہیں فرشتےہوں یا پرندے اس کہ گھر کا طواف کر رہے ہیں، روکا ہے تو ہم انسانوں کو روک دیا ہے، آج ہم اس لیے نہیں ڈرے ہیں کہ ایک وائرس ہمیں نقصان پہنچا سکتا ہے بلکہ ہم اس لیے خوف کی علامت بنے ہوئے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ رب جب ناراض ہوتا ہے تو رزق نہیں چھین لیتا بس اپنی عبادت سے محروم کر دیتا ہے۔ 
ظلم کی وہ داستانیں رقم کیں ہیں کہ اگر حساب دنیا میں ہی لے لیا گیا تو کوئی کسی کو چہرا دکھانے کے قابل نہیں رہے گا۔ عدل وانصاف کی جو جڑیں ہم نے کاٹی ہیں اسکا حساب تو دنیا کو دینا ہی تھا۔ ابھی تو صرف دنیا کو ہلایا گیا ہے، ابھی تو صرف ایک لوک ڈاؤن کیا گیا ہے، ابھی تو اس دنیا نے گھروں کے باہر موت کو محسوس کیا ہے، ابھی تو صرف دنیا نے ایک دوسرے سے فاصلہ کیا ہے، ابھی تو سپر پاور اور بہترین طبی سہولیات کا مزہ چکھا ہے، ابھی تو اور بہت کچھ یاد دلانا باقی ہے، ابھی تو بھوک و افلاس سے تڑپی نہیں ہے یہ دنیا، ابھی تو سوشل میڈیا موجود ہے اپنی آواز دنیا تک پہنچانے کیلئے، ابھی تو اپنے پیاروں کی خیریت مل رہی ہے، ابھی کیوں جاگ رہی ہے یہ دنیا ابھی تو صبر و تحمل رکھنا ہے نہ جیسے سالوں سے تلقین کی جارہی تھی، کہا جارہا تھا ہم ایک دن آپ کی مشکلات حل کریں گے۔ ابھی کیوں چیخیں نکل رہی ہیں؟ ابھی تو بس کچھ مہینے گزرے ہیں اتنے سالوں سے جو یہ دنیا اپنے ظلم کا مزہ لے رہی تھی اس وقت کیوں کسی کی آواز نہیں نکلی؟ آخر کیوں آج انسان  رو رہا ہے آج کیوں پوری دنیا ایک دوسرے کی تکلیف کو محسوس کر رہی ہے؟ ابھی تو صرف انسان کو اسکی اصل جگہ دکھائی گئی ہے، ابھی تو ہمیں ہماری اوقات بتائی گئی ہے، ابھی تو اس بابرکت ذات نے ہمیں وقت دیا ہے توبہ کا وقت، اپنے گناہوں سے معافی مانگنے کا وقت، اپنے اللّٰہ کو منا لینے کا وقت، اپنی ندامت کے اظہار کا وقت۔ خوش قسمت ہیں ہم کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ اپنی امت کے لیے دعا کی اور آج ہمیں ہماری اتنی ناانصافیوں کے بعد بھی اللّٰہ نے وقت دیا ہے۔ اللہ ہم سب کو محفوظ رکھے کیونکہ وہ ذات سب سے افضل ہے، پاک ہے، کریم ہے، وہ رحمٰن ہے، وہ رحیم ہے۔ ہم خاک ہیں اور اس کے ایک کن کے محتاج ہیں! یاالہی رحم فرما۔

No comments:

Post a Comment